پہلی آیت کے لفظ البروج کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول :
اس کا مضمون خود یہ بتا رہا ہے کہ یہ سورت مکۂ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ برپا تھا اور کفار مکہ مسلمانوں کو سخت سے سخت عذاب دے کر ایمان سے پھیر دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
موضوع اور مضمون :
موضوع اور مضمون :
اس کا موضوع کفار کو اس ظلم و ستم کے برے انجام سے خبردار کرنا ہے جو وہ ایمان لانے والوں پر توڑ رہے تھے، اور اہل ایمان کو یہ تسلی دینا ہے کہ اگر وہ ان مظالم کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں گے تو ان کو اس کا بہترین اجر ملے گا اور اللہ تعالٰی ظالموں سے بدلہ لے گا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے اصحاب الاخدود کا قصہ سنایا گیا ہے جنہوں نے ایمان لانے والوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک پھینک کر جلا دیا تھا۔ اور اس قصے کے پیراے میں چند باتیں مومنوں اور کافروں کے ذہن نشین کرائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح اصحاب الاخدود خدا کی لعنت اور اس کی مار کے مستحق ہوئے اسی طرح سرداران مکہ بھی اس کے مستحق بن رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جس طرح ایمان لانے والوں نے اس وقت آگ کے گڑھوں میں گر کر جان دے دینا قبول کر لیا تھا اور ایمان سے پھرنا قبول نہیں کیا تھا، اسی طرح اب بھی اہل ایمان کو چاہیے کہ ہر سخت سے سخت عذاب بھگت لیں مگر ایمان کی راہ سے نہ ہٹیں۔ تیسرے یہ کہ جس خدا کے ماننے پر کافر بگڑتے اور اہل ایمان اصرار کرتے ہیں وہ سب پر غالب ہے، زمین و آسمان کی سلطنت کا مالک ہے، اپنی ذات میں آپ حمد کا مستحق ہے، اور دونوں گروہوں کے حال کو دیکھ رہا ہے، اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ کافروں کو نہ صرف ان کے کفر کی سزا جہنم کی صورت میں ملے، بلکہ اس پر مزید ان کے ظلم کی سزا بھی ان کو آگ کے چرکے دینے کی شکل میں بھگتنی پڑے۔ اسی طرح یہ امر بھی یقینی ہے کہ ایمان لا کر نیک عمل کرنے والے جنت میں جائیں، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ پھر کفار کو خبردار کیا گیا ہے کہ خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے، اگر تم اپنے جتھے کی طاقت کے زُعم میں مبتلا ہو تو تم سے بڑے جتھے فرعون اور ثمود کے پاس تھے، ان کے لشکروں کا جو انجام ہوا ہے اس سے سبق حاصل کرو۔ خدا کی قدرت تم پر اس طرح محیط ہے کہ اس کے گھیرے سے تم نکل نہیں سکتے، اور قرآن، جس کی تکذیب پر تم تلے ہوئے ہو، اس کی ہر بات اٹل ہے، وہ اس لوح محفوظ میں ثبت ہے جس کا لکھا کسی کے بدلے نہیں بدل سکتا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے اصحاب الاخدود کا قصہ سنایا گیا ہے جنہوں نے ایمان لانے والوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک پھینک کر جلا دیا تھا۔ اور اس قصے کے پیراے میں چند باتیں مومنوں اور کافروں کے ذہن نشین کرائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح اصحاب الاخدود خدا کی لعنت اور اس کی مار کے مستحق ہوئے اسی طرح سرداران مکہ بھی اس کے مستحق بن رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جس طرح ایمان لانے والوں نے اس وقت آگ کے گڑھوں میں گر کر جان دے دینا قبول کر لیا تھا اور ایمان سے پھرنا قبول نہیں کیا تھا، اسی طرح اب بھی اہل ایمان کو چاہیے کہ ہر سخت سے سخت عذاب بھگت لیں مگر ایمان کی راہ سے نہ ہٹیں۔ تیسرے یہ کہ جس خدا کے ماننے پر کافر بگڑتے اور اہل ایمان اصرار کرتے ہیں وہ سب پر غالب ہے، زمین و آسمان کی سلطنت کا مالک ہے، اپنی ذات میں آپ حمد کا مستحق ہے، اور دونوں گروہوں کے حال کو دیکھ رہا ہے، اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ کافروں کو نہ صرف ان کے کفر کی سزا جہنم کی صورت میں ملے، بلکہ اس پر مزید ان کے ظلم کی سزا بھی ان کو آگ کے چرکے دینے کی شکل میں بھگتنی پڑے۔ اسی طرح یہ امر بھی یقینی ہے کہ ایمان لا کر نیک عمل کرنے والے جنت میں جائیں، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ پھر کفار کو خبردار کیا گیا ہے کہ خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے، اگر تم اپنے جتھے کی طاقت کے زُعم میں مبتلا ہو تو تم سے بڑے جتھے فرعون اور ثمود کے پاس تھے، ان کے لشکروں کا جو انجام ہوا ہے اس سے سبق حاصل کرو۔ خدا کی قدرت تم پر اس طرح محیط ہے کہ اس کے گھیرے سے تم نکل نہیں سکتے، اور قرآن، جس کی تکذیب پر تم تلے ہوئے ہو، اس کی ہر بات اٹل ہے، وہ اس لوح محفوظ میں ثبت ہے جس کا لکھا کسی کے بدلے نہیں بدل سکتا۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِۙ۰۰۱وَ الْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِۙ۰۰۲وَ شَاهِدٍ وَّ مَشْهُوْدٍؕ۰۰۳قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِۙ۰۰۴النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِۙ۰۰۵اِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُوْدٌۙ۰۰۶وَّ هُمْ عَلٰى مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌؕ۰۰۷وَ مَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِۙ۰۰۸الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌؕ۰۰۹اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِؕ۰۰۱۰اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۣؕ۬ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيْرُؕ۰۰۱۱اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌؕ۰۰۱۲اِنَّهٗ هُوَ يُبْدِئُ وَ يُعِيْدُۚ۰۰۱۳وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُۙ۰۰۱۴ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُۙ۰۰۱۵فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُؕ۰۰۱۶هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْجُنُوْدِۙ۰۰۱۷فِرْعَوْنَ وَ ثَمُوْدَؕ۰۰۱۸بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ تَكْذِيْبٍۙ۰۰۱۹وَّ اللّٰهُ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ مُّحِيْطٌۚ۰۰۲۰بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌۙ۰۰۲۱فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍؒ۰۰۲۲
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
قسم ہے مضبُوط قلعوں والے آسمان کی1، اور اُس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے2، اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز3 کی کہ مارے گئے گڑھے والے، ﴿اُس گڑھے والے﴾ جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی ۔ جبکہ وہ اُس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اُسے دیکھ رہے4 تھے۔ اور اُن اہلِ ایمان سے اُن کی دشمنی اِس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان ے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے ، جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے5۔
جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے، یقیناً اُن کے لیے جہنّم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جَلائے جانے کی سزا ہے6۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، یقیناً اُن کے لیے جنّت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ ہے بڑی کامیابی۔
در حقیقت تمہارے ربّ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور وہ بخشنے والا ہے ، محبت کرنے والا ہے ، عرش کا مالک ہے، بزرگ و برتر ہے ، اور جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے7۔ کیا تمہیں لشکروں کی خبر پہنچی ہے؟ فرعون اور ثمود ﴿کے لشکروں ﴾ کی8؟ مگر جنہوں نے کُفر کیا ہے وہ جھُٹلانے میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ اللہ نے اُن کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ﴿اُن کے جھُٹلانے سے اِس قرآن کا کچھ نہیں بگڑتا﴾ بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے ، اُس لوح میں ﴿نقش ہے﴾ جو محفوظ ہے
جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے، یقیناً اُن کے لیے جہنّم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جَلائے جانے کی سزا ہے6۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، یقیناً اُن کے لیے جنّت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ ہے بڑی کامیابی۔
در حقیقت تمہارے ربّ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور وہ بخشنے والا ہے ، محبت کرنے والا ہے ، عرش کا مالک ہے، بزرگ و برتر ہے ، اور جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے7۔ کیا تمہیں لشکروں کی خبر پہنچی ہے؟ فرعون اور ثمود ﴿کے لشکروں ﴾ کی8؟ مگر جنہوں نے کُفر کیا ہے وہ جھُٹلانے میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ اللہ نے اُن کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ﴿اُن کے جھُٹلانے سے اِس قرآن کا کچھ نہیں بگڑتا﴾ بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے ، اُس لوح میں ﴿نقش ہے﴾ جو محفوظ ہے
No comments:
Post a Comment